تحریر: مولانا سید علی ہاشم عابدی
حوزہ نیوز ایجنسی। اسلامی اور انسانی اقدار کے پاسبان واقعہ کربلا میں جہاں جوانوں نے قربانیاں دیں، وہیں عمر دارز شخصیات بھی ایثار میں پیچھے نہیں رہیں، یہاں تک کہ کمسن بچوں نے عروس شہادت کو گلے لگایا حتی امام حسین علیہ السلام کے شیرخوار بچے کی شہادت بھی افق عالم پر سورج چاند کی طرح دمک چمک رہی ہے۔ نہ صرف مردوں بلکہ خواتین نے بھی اپنا وہ کردار نبھایا کہ اگر تاریخ کربلا میں ان شیر دل خواتین کا ذکر نہ ہو تو تاریخ نہ صرف ادھوری بلکہ طاق نسیاں کا شکار ہو جائے گی۔
ذیل میں کربلا کی چند خواتین کا تذکرہ پیش ہے؛
حضرت زینب سلام اللہ علیہا
نبیؐ کی نواسی، زینت حیدرؑ، ثانی زہراؑ، شریکۃ الحسینؑ کا نام اللہ نے لوح محفوظ پر "زین اب" یعنی زینب رکھا۔
حضرت زینب سلام اللہ علیہا عصر عاشور تک معمار کربلا امام حسین علیہ السلام کی مشاور تھیں۔ اسکے بعد مقصد کربلا کی محافظ اور پیغام کربلا کی مبلغہ ہیں۔
کربلا در کربلا می ماند اگر زینب نبود
شیعہ پژمردہ می شد اگر زینب نبود
حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا
جس طرح حضرت عباس علیہ السلام امام حسین علیہ السلام کے نہ صرف بھائی بلکہ باوفا پیروکار تھے اسی طرح نبی کی چھوٹی نواسی، امیرالمومنین علیہ السلام کی آخری میزبان حضرت ام کلثوم سلام اللہ علیہا تعمیر، تحفظ اور تبلیغ کربلا کے ہر محاذ پر حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے شانہ بہ شانہ رہیں۔ کوفہ میں خطبہ دیا اور مدینہ واپسی پر وہ نوحہ پڑھا جسے سن کر آج بھی ہر دل غمزدہ اور ہر آنکھ اشکبار ہو جاتی ہے۔
حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا
سکون نفس مطمئنہ، باعث تسکین قلب وارث انبیاء حضرت سکینہ سلام اللہ علیہا نے کمسنی میں ایثار و قربانی کے وہ نقوش چھوڑے ہیں جن تک دنیاکی بزرگ خواتین بلکہ مردوں کی بھی رسائی ممکن نہیں۔ بھوک و پیاس، یتیمی اور مظلومیت کے باوجود اس کمسنی میں اہداف حسینی کی حفاظت فرمائی۔
حضرت رباب سلام اللہ علیہا
امام حسین علیہ السلام کی شریکہ حیات و مقصد حضرت رباب سلام اللہ علیہا نے کربلا میں سہاگ کی قربانی دی وہی اس سے پہلے اپنے شیر خوار بچے کی وہ قربانی پیش کی جو رہتی دنیا تک امام حسین علیہ السلام کی مظلومیت اور حقانیت کی دلیل بن گئی۔ امام حسین علیہ السلام کے غم میں نوحہ کیا اور جب واپس مدینہ آئیں تو ایک سال تک کربلا والوں کی عزاداری کی کبھی سایہ میں نہ بیٹھیں یہاں تک کہ روح جسم سے پرواز کر گئی۔
حضرت ام اسحاق سلام اللہ علیہا
امام حسین علیہ السلام کی زوجہ جناب ام اسحاق سلام اللہ علیہا کربلا میں موجود تھیں۔ آپ حاملہ تھیں۔ مظلوم کربلا نے اپنے مظلوم بھائی حضرت محسن بن علی و فاطمہ سلام اللہ علیہم کے نام پر ولادت سے قبل اپنے نور نظر کا نام محسن رکھا تھا۔ راہ شام میں حلب کے نزدیک یزیدی ظلم و ستم کے سبب یہ محسن مظلوم اپنے مظلوم چچا کی طرح بطن مادر میں ہی شہید ہو گئے اور وہیں دفن ہوئے۔ حلب کے نزدیک "مشہد السقط" و "مشہد المحسن" کے نام سے آپ کا مزار مقدس عاشقان اہلبیت علیہم السلام کی زیارت گاہ ہے۔
جناب ام سلیمان سلام االلہ علیہا
آپ کا نام کبشہ تھا، کنیز تھیں۔ امام حسین علیہ السلام نے ایک ہزار درہم میں انہیں خریدا، جناب ام اسحٰقؑ (زوجہ امام حسین علیہ السلام ) کے یہاں خدمت کرتی تھیں۔ جنکی بعد میں ابو رزین سے شادی ہوئی اور جناب سلیمان پیدا ہوئے۔ جناب سلیمان امام حسین علیہ السلام کا خط لے کر بصرہ گئے۔ عبیداللہ بن زیاد کے سپاہیوں نے انہیں گرفتار کر کے شہید کر دیا جناب ام سلیمان سلام اللہ علیہا عالمہ و فاضلہ تھیں۔ اپنے مولا امام حسین علیہ السلام کے ساتھ مدینہ سے کربلا گئیں۔ شہادت حسینی کے بعد اہل حرم کے ساتھ آپ کو اسیر کر کے شام و کوفہ لے جایا گیا۔
جناب فُکھیہ سلام اللہ علیہا
آپ عبداللہ بن اریقط کی زوجہ تھیں اور امام حسین علیہ السلام کی زوجہ جناب رباب سلام اللہ علیہا کی خادمہ تھیں۔ جب امام حسین علیہ السلام نے مدینہ سے سفر کیا تو جناب فُکھیہ بھی اپنے فرزند جناب قارب سلام اللہ علیہ کو لے کر امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلا تشریف لائیں۔ جناب قارب علیہ السلام کربلا میں شہید ہوئے اور آپ دیگر اسیروں کے ساتھ اسیر ہو کر کوفہ و شام تک گئیں۔
جناب حُسنیہ سلام اللہ علیہا
آپ امام حسین علیہ السلام کی کنیز تھیں جنہیں امام عالی مقام نے آزاد کر دیا تھا۔ آپ کی شادی ’’سہم‘‘نامی شخص سے ہوئی۔ اللہ نے آپ کو ایک بیٹا دیا جنکا نام ’’منجح ‘‘ تھا۔ جناب حسنیہ سلام اللہ علیہا امام زین العابدین علیہ السلام کی خادمہ تھیں۔ آپ اپنے بیٹے جناب منجح کو لے کر امام حسین علیہ السلام کے ہمراہ کربلا تشریف لائیں۔ جناب منجح کربلا میں شہید ہوئے اور آپ اسیر ہوئیں۔
جناب ام وہب سلام اللہ علیہا
کربلا کی شجاع اور مجاہدہ خاتون جناب ام وہب سلام اللہ علیہا شہید کربلا جناب عبداللہ بن عمیر علیہ السلام کی زوجہ تھیں۔اپنے شوہر کے ہمراہ کوفہ سے نکلیں اور راہ کربلا میں حسینی قافلہ سے ملحق ہوئیں اور کربلا پہنچی۔ یوم عاشورا جب آپ کے شوہر جناب عبداللہ بن عمیر علیہ السلام جہاد کے لئے میدان کی جانب چلے تو آپ بھی چوب خیمہ لے کر نکلیں لیکن امام حسین علیہ السلام نے آپ کو یہ کہہ کر روک دیا کہ خواتین پر جہاد نہیں ہے۔ لیکن جب آپ کے شوہر شہید ہوئے تو آپ انکے جنازہ پر پہنچی تو فرمایا کہ تمہیں جنت مبارک ہو خدا سے دعا ہے کہ ہمیں تمہارے ساتھ قرار دے۔ شمر ملعون نے اپنے غلام رستم کو حکم دیا کہ آپ کو شہید کر دے۔ رستم نے آپ کے سر پر وار کیا اور آپ بھی شہید ہو گئیں۔
دوسری روایات میں اسی سے مشابہ واقعہ جناب وھب ابن عبداللہ ابن عمیر علیہ السلام کا تھوڑے اختلاف سے نقل ہوا ہے اور کربلا میں جو خاتون شہید ہوئیں وہ جناب وہب کی بیوی تھیں۔ جیسے بحارالانوار میں علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں: "وہب بن عبداللہ کلبی شہدائے کربلا میں سے ہیں۔ ان کی ماں اور بیوی بھی کربلا میں تھیں اور شہید ہوئیں۔
شیخ عباس قمی رحمۃ اللہ علیہ نے علامہ مجلسی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے نقل فرمایا: میں نے ایک روایت میں دیکھا کہ ابن وہب عیسائی تھے اور وہ امام حسین علیہ السلام کے ہاتھوں اپنی ماں کے ساتھ مسلمان ہوئے۔ اپنی جدوجہد اور سجاعت سے عمربن سعد کے لشکر کے
چوبیس پیادوں اور بارہ گھڑسواروں کو قتل کیا۔ آخر میں انہیں گرفتار کر کے عمر بن سعد کے پاس لے جایا گیا۔ عمر بن سعد نے کہا: تم بہت شجاع ہو۔ اس کے بعد اس نے حکم دیا کہ ان کا سر قلم کر کے امام حسین علیہ السلام کی جانب پھینک دیا جائے۔ ان کی ماں نے ان کا سر اٹھایا اور بوسہ دیا اور لشکر ابن سعد کی جانب پھینک دیا جو ایک سپاہی کو لگا اور وہ وہیں مر گیا۔ جسکے بعد انھوں نے چوب خیمہ سے حملہ کیا اور دو یزیدیوں کو واصل جہنم کیا۔ امام حسین علیہ السلام نے ان سے فرمایا: اے ام وہب واپس آجائیں۔ خواتین پر جہاد نہیں ہے۔ ام وہب واپس ہوئیں اور کہا: اے خدا مجھے مایوس نہ کر ، امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: خدا تجھے مایوس نہ کرے۔
سید ابن طاووس رحمۃ اللہ علیہ اس سلسلہ میں لکھتے ہیں: جناب وہب ابن جناح کلبی اپنی زوجہ اور والدہ کے ساتھ کربلا آئے۔ بعض روایات میں دو ’’وہب‘‘ کا ذکر ہواہے۔ بہر حال جناب وہب کی زوجہ امام حسین علیہ السلام کی فوج میں شہید ہونے والی پہلی خاتون تھیں اور جناب وہب کی والدہ ان سے اس وقت تک راضی نہیں ہوئیں جب تک کہ انھوں نے اپنی جان امام حسین علیہ السلام پر قربان نہ کر دی۔
جناب ام خلف سلام اللہ علیہا
جناب ام خلف پہلی صدی ہجری کی نامور شیعہ خاتون تھیں۔ امام حسین علیہ السلام کے باوفا صحابی جناب مسلم بن عوسجہ علیہ السلام سے شادی کی اللہ نے آپ کو ایک بیٹا دیا جس کا نام خلف تھا۔ آپ اپنے شوہر اور بیٹے کے ہمراہ کوفہ سے نکلیں اور راہ کربلا میں حسینی قافلہ سے ملحق ہوئیں اور کربلا پہنچی۔ جناب مسلم بن عوسجہ کی شہادت کے بعد آپ نے اپنے فرزند جناب خلف کو میدان کی جانب بھیجا۔ امام حسین علیہ السلام نے جناب خلف سے فرمایا: پلٹ جاو! تمہاری ماں کے لئے تمہارے بابا کا غم کافی ہے۔ تو آپ نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اپنی جان فرزند رسول پر قربان کر دو۔ جناب خلف میدان میں گئے اور شجاعت کے جوہر دکھائے آخر آپ کے سر و تن میں جدائی کر کے سر کو لشکر حسینی کی جانب پھینکا۔ جناب ام خلف نے بیٹے کے سر کو اٹھایا، بوسہ لیا اور ایسا نوحہ کیا جسے سن کر ہر دل غمگین اور ہر آنکھ اشکبار ہو گئی۔
جناب ام عمرو سلام اللہ علیہا
آپ کا نام بحریہ بنت مسعود الخزرجی ہے۔ آپ شہید کربلا جناب جنادہ ابن کعب انصاری کی زوجہ تھیں۔ جنکا نام جنادہ ابن حرث بھی نقل ہوا ہے جو قبیلہ خزرج سے تھے۔ جناب جنادہ ابن کعب مکہ سے امام حسین علیہ السلام کے قافلے میں شامل ہوئے اور روز عاشورہ حملہ اولیٰ میں شہید ہوئے۔ آپ کے فرزند جناب عمر وبن جنادہ بھی کربلا میں شہید ہوئے۔ عمرو ابن جنادہ انصاری کربلا کے نوجوان شہداء میں سے تھے اور جب وہ میدان جنگ کی جانب جا رہے تھے تو امام حسین علیہ السلام نے فرمایا: اس نوجوان کے والد شہید ہو گئے ہیں شاید اس کی والدہ اس کے میدان میں جانے پر راضی نہ ہوں۔ جناب عمرو نے عرض کیا: میری ماں نے ہی مجھے جہاد کا حکم دیا ہے اور انھوں نے
ہی مجھے تیار کیا ہے۔ جناب عمرو بن جنادہ کی عمر 9 یا 11 سال سے زیادہ نہیں تھی جب وہ شہید ہوئے۔ یزیدی لشکر نے شہادت کے بعد ان کا سر انکی ماں کی جانب ہھینکا۔ ماں نے سر اٹھایا اور کہا: تم نے کتنا اچھا جہاد کیا ، میرے بیٹے ، اے میرے دل کی خوشی! اے میری آنکھوں کی روشنی! پھر وہ سر دشمن کی جانب اچھال دیا۔ جو ایک یزیدی سپاہی کو لگا اور وہ واصل جہنم ہو گیا۔ اس کے بعد جناب ام عمرو نے چوب خیمہ اٹھایا اور میدان کا رخ کیا لیکن امام حسین علیہ السلام نے انہیں خیمہ کی جانب واپسی کاحکم دیا اور وہ واپس خیمہ میں چلی گئیں۔
جناب رویحہ سلام اللہ علیہا
آپ جناب ہانی بن عروہ کی زوجہ تھیں۔ جناب مسلم بن عقیل علیہ السلام اور جناب ہانی بن عروہ علیہ السلام کی شہادت کے بعد آپ اور آپ کے فرزند جناب یحییٰ کوفہ میں مخفی ہو گئے۔ جب اطلاع ملی کہ امام حسین علیہ السلام۲ ؍ محرم کووارد کربلا ہوگئے ہیں تو آپ ماں بیٹے بھی مخفیانہ طور پر کوفہ سے نکلے اور کربلا میں لشکر حسینی میں شامل ہو گئے۔ جناب یحییٰ علیہ السلام روز عاشورا شہید ہوئے اور آپ اسیر ہوئیں۔ اگرچہ جناب رویحہ کے والد عمر بن حجاج کربلا میں عمر بن سعد کے لشکر کا سپاہی تھا اور عمر سعدنے اسے فرات پر مامور کیا تھا تا کہ خیام حسینی میں پانی نہ جاسکے لیکن آپ اپنے شوہر جناب ہانی کی راہ کی راہی تھیں۔
خدا کا درود و سلام ہو کربلا کی ان شیر دل خواتین پر جنہوں نے اپنی جان ، مال اور اولاد راہ خدا میں قربان کردی ۔ دنیا اور دنیا والوں کی دوستی اور رشتہ ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ لا سکے۔ ان خواتین نےنہ صرف تبلیغ کربلا بلکہ تعمیرکربلا کے مراحل میں کلیدی کردار ادا کیا۔ ان کا کردار رہتی دنیاتک نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کے لئے اسوہ حسنہ ہے۔
اللہ ہمیں انکی معرفت اور پیروی کی توفیق کرامتے فرمائے۔ آمین
آپ کا تبصرہ